EN हिंदी
اس کے نام جو مجھے نہیں جانتی | شیح شیری
uske nam jo mujhe nahin jaanti

نظم

اس کے نام جو مجھے نہیں جانتی

احمد ہمیش

;

نہیں ہمیشؔ ایسا مت ہونے دو
ابھی تو تمہیں اسم دینا ہے

اس روٹی کے ٹکڑے کو
جسے دنیا بھر کی بھوک سے چرایا گیا

اور غریبی کس دیش کی دیو مالا ہے
تمہیں اسم دینا ہے

نوجوانی کے دنوں کی اس امنگ کو
یا اس کے نام کے پیڑ کی ٹوٹی ہوئی ایک پتی کو

یا ادھوری سچائیوں کے نام پر جلائی گئی کتابوں کو
دیکھو ہاں ابھی ابھی ایک خیال مٹی پر رکھا گیا ہے

کہیں اسے لا وطن نہ کر دیا جائے
موکھوں پر ہنسنے کے لئے بھی تو ایک ہی جیسی ہنسی رہ گئی ہے

یہاں تک کہ بجلی چلی جاتی ہے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ اس عرصے میں میں اس آواز میں
بلی کے پنجوں پنجوں سے کھرنچنے والی سفاکی بڑھ گئی ہو

ایک آدمی کا دل ہے کہ آسانی سے نہیں منتا
ورنہ عورتوں گالیوں سے کتے بلی تو مر ہی جاتے ہیں

یہ جانتے ہوئے بھی کہ محبت کو اداکاریوں سے بچائے رکھنے کے لئے تمہیں انتظار کرنا ہے