ایک ہے ایسی لڑکی جس سے تم نے ہنس کر بات نہ کی
کبھی نہ دیکھا اس کی آنکھوں میں چمکے کیسے موتی
کبھی نہ سوچا تم سے ایسی باتیں وہ کیوں کہتی ہے
کبھی نہ سمجھا ملتے ہو تو گھبرائی کیوں رہتی ہے
کیسے اس رخسار کی رنگت سرسوں جیسی زرد ہوئی
جب تک ملی نہیں تھی تم سے وہ ایسی تنہا تو نہ تھی
مل کر آنکھ بہانے سے وہ کب تک آنسو روکے گی
اس کے ہونٹوں کی لرزش بھی تم نے کبھی نہیں دیکھی
کیوں ایسی سنسان سڑک پر اسے اکیلا چھوڑ دیا
اس کا دل تو اچھا دل تھا جس کو تم نے یوں توڑ دیا
وہ کچھ نادم وہ کچھ حیراں رستہ ڈھونڈا کرتی تھی
ڈھلتی دھوپ میں اپنا بے کل سایہ دیکھ کے ہنستی تھی
آخر سورج ڈوب گیا اور راہ میں اس کو شام ہوئی
نظم
اس کا دل تو اچھا دل تھا
فہمیدہ ریاض