EN हिंदी
انہیں مجھ سے شکایت ہے | شیح شیری
unhen mujhse shikayat hai

نظم

انہیں مجھ سے شکایت ہے

عذرا نقوی

;

انہیں مجھ سے شکایت ہے کہ میں ماضی میں جیتی ہوں
مرے اشعار میں آسیب ہیں گزرے زمانوں کے

وہ کہتے ہیں کی یادیں سائے کی مانند میرے ساتھ رہتی ہیں
یہ سچ ہے اس سے کب انکار ہے مجھ کو

میں اکثر جاگتے دن میں بھی آنکھیں موند لیتی ہوں
کوئی صورت کوئی آواز کوئی ذائقہ یا لمس جب جادو جگاتا ہے

تو گرد آلود مینا طور تصویریں اچانک بولنے لگتی ہیں ناٹک منچ سجتا ہے
کسی ٹوٹے ہوئے صندوق میں رکھے ہوئے

بوسیدہ مخطوطے سے کوئی داستاں تمثیل بن جاتی ہے
جی اٹھتے ہیں سب کردار ماضی کے

سپاہی بادشاہ خلعت نوادر رقص و موسیقی
کسی کے پاؤں میں پائل دھنک آنچل

کسی شمشیر کی بجلی گھنی برسات کی بدلی
کسی بارہ دری میں راگ دیپک کا

کسی صحن گلستاں میں کدم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئی چڑیاں
اچانک جاگ جاتی ہیں

کسی گمنام قصبے میں کوئی ٹوٹی ہوئی محراب خستہ حال ڈیوڑھی کی جھلک
معدوم کر دیتی ہے ہوٹل چائے خانے بس کے اڈے ڈھیر کوڑے کے

کئی صدیاں گزر جاتی ہیں سر سے
اور کوئی گم گشتہ شہر رفتگاں بیدار ہوتا ہے

اسی منظر کا حصہ بن کے میں تصویر ہو جاتی ہوں کھو جاتی ہوں ماضی میں
میں اکثر آبنائے وقت پر کاغذ کی ناؤ ڈال دیتی ہوں

تو پانی اپنا رستہ موڑ دیتا ہے
میں جب چاہوں

سلونی سانولی نٹ کھٹ مدھر یادیں اٹھا لاؤں لڑکپن کے گھروندوں سے
میں جب چاہوں تو کالی کوٹھری میں قید

رنجیدہ پشیماں زخم خوردہ ساعتوں بیتے دنوں کو پیار سے چھو کر
دلاسہ دوں تھپک کر لوریاں دوں

خوب روؤں خوب روؤں شانت ہو جاؤں
یہ ماضی میرا ماضی ہے

فقط میرے تصرف میں ہے
میری ملکیت ہے میرا ورثہ ہے

نہ میرا حال پر بس ہے
اور آنے والا کل بھی کس نے دیکھا ہے