EN हिंदी
انہیں ڈھونڈو | شیح شیری
unhen DhunDo

نظم

انہیں ڈھونڈو

بشریٰ اعجاز

;

انہیں ڈھونڈھو سفر کی شام سے پہلے
کسی انجام سے پہلے

انہیں ڈھونڈو
جو ملنے کی گھڑی میں

ہم سے بچھڑے تھے
دلوں سے پھوٹتے اس غم سے بچھڑے تھے

جو آنکھیں خشک رکھتا ہے
مگر دہلیز جاں تک

پانیوں کو چھوڑ جاتا ہے
جو رستہ دل کی گلیوں سے نکلتا ہو

اسی رستے کی ہر اک سمت کو
وہ موڑ جاتا ہے

مسرت کی ہری شاخوں کو آ کر توڑ جاتا ہے
انہیں ڈھونڈو

اداسی کی کتابوں سے
تمنا کے نصابوں میں لکھی

تحریر کے مفہوم سے
جس میں اداسی نے

خود اپنی بے بسی کا باب لکھا تھا
شعور ذات کا

دھندلا سا اک احساس لکھا تھا
انہیں ڈھونڈو

جدائی کی گلی میں
لوٹ آنے کا سندیسہ چھوڑ کر

رخصت ہوئے تھے جو
چراغوں نے جنہیں

اس آخری ساعت میں دیکھا تھا
کہ جب ان کی لویں بجھنے لگی تھیں

اور جب خود میں مکمل ہو رہے تھے
انہیں ڈھونڈو جو آنکھوں سے

فقط اک خواب کی
دوری پہ رہتے ہیں

جنہیں آنکھیں
ہزاروں سال کی فرقت کو

اوڑھے ڈھونڈتی ہیں
ہمیشہ جاگتی ہیں