دور آنکھوں سے بہت دور، کہیں
اک تصور ہے، جو بے زار کیے رکھتا ہے
وہ کوئی خواب ہے یا خواب کا اندیشہ ہے
جو مرے سوچ کو مسمار کیے رکھتا ہے
دور، قسمت کی لکیروں سے بہت دور، کہیں
ایک چہرہ ہے، ترے چہرے سے ملتا جلتا
جو مجھے نیند میں بے دار کیے رکھتا ہے
دور سے، اور بہت دور کی آوازوں سے
ایک آواز بلاتی ہے سر شام مجھے
جانتا ہوں میں محبت کی حقیقت لیکن
پھر بھی آغوش تمنا میں، تڑپ اٹھتا ہوں
چہرے چہرے پہ بکھرتی ہوئی، آوازوں میں
تیری آواز سے آواز کہاں ملتی ہے
ایک قندیل خیالوں کی مگر جلتی ہے
تو مرے پاس، بہت پاس، کہیں رہتی ہے
دور ہے دور بہت دور، مگر پھر بھی، مجھے
ایک امید سر شام سجا رکھتی ہے
ایک الجھن مجھے راتوں کو جگا رکھتی ہے
نظم
امید الجھن
خالد ملک ساحلؔ