EN हिंदी
الجھن | شیح شیری
uljhan

نظم

الجھن

علی عمران

;

کس سے پوچھوں میرے مالک
میرے جسم سے مجھ کو اب یہ خون کی بو کیوں آتی ہے

جبکہ کوئی زخم نہیں ہے
گھاؤ نہیں جو دکھتا ہو

پھر یہ کیسی بو ہے جو سانسوں میں رینگتی رہتی ہے
کپڑوں سے چمٹی ہے

میرے دروازوں سے دیواروں سے
میز پہ رکھے اخباروں سے رستی ہے

کیسے میں اس خون کی باسی بو سے چھٹکارا پاؤں گا
رگڑ رگڑ کر خود کو دیکھا

کتنے ہی دریاؤں میں میں غوطہ مار کے آیا لیکن
خون کی باس بڑی ضدی ہے

جا کر ہی نہیں دیتی ہے
جبکہ کوئی زخم نہ کوئی گھاؤ بدن پر ہے میرے

ایسی کون سی چوٹ لگی تھی
لوگ تو روزانہ مرتے ہیں

روز ہی اک گردن کٹتی ہے
مسجد میں بم باندھ کے کوئی روز نوافل پڑھتا ہے

یہ سب تو معمول ہے لیکن
میرے جسم سے مجھ کو پھر یہ خون کی بو کیوں آتی ہے

جبکہ کوئی زخم نہیں ہے گھاؤ نہیں جو دکھتا ہو