کہیں بھی جائے اماں نہیں ہے
نہ روشنی میں نہ تیرگی میں
نہ زندگی میں نہ خودکشی میں
عقیدے زخموں سے چور پیہم کراہتے ہیں
یقین کی سانس اکھڑ چلی ہے
جمیل خوابوں کے چہرۂ غمزدہ سے ناسور رس رہا ہے
عزیز قدروں پہ جاں کنی کی گرفت مضبوط ہو گئی ہے
پتنگ کی طرح کٹ چکے ہیں تمام رشتے
جو آدمی کو قریب کرتے تھے آدمی سے
دلوں میں قوس قزح کی انگڑائیاں جن سے ٹوٹتی تھیں
نہ فرد ہی کا مکاں سلامت
نہ اجتماعی وجود ہی زیر سائباں ہے
کوئی خدا تھا تو وہ کہاں ہے؟
کوئی خدا ہے تو وہ کہاں ہے؟
مہیب طوفاں مہیب تر ہے
پہاڑ تک ریت کی طرح اڑ رہے ہیں
بس ایک آواز گونجتی ہے
''مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ''
مگر کہیں بھی اماں نہیں ہے
جو اپنی کشتی پہ بچ رہے گا
وہی علیہ لسلام ہوگا
نظم
اکھڑتے خیموں کا درد
مظہر امام