EN हिंदी
افق کی ہتھیلی سے سورج نہ ابھرے | شیح شیری
ufuq ki hatheli se suraj na ubhre

نظم

افق کی ہتھیلی سے سورج نہ ابھرے

عادل منصوری

;

اسے گیند کی نرم گولائی اپنی طرف کھینچتی تھی
وہ پیدا ہوا تھا تو

میں نے ہی کانوں میں دی تھی اذاں
وہ لاری کے پہیوں کی گولائیاں

ناپنا چاہتا تھا
اسے ہسپتالی فرشتوں نے

سٹریچر سے نیچے اتارا
میں لمحوں کو

آنکھوں سے ٹانکے لگانے میں مصروف
کرسی میں بیٹھا ہوا تھا

ادھر پیر سے خون کی کمسنی پھوٹتی تھی
آپریشن تھئیٹر میں

چیخوں کے سایوں کے ملبوس اترے
افق کی ہتھیلی سے سورج نہ ابھرے