EN हिंदी
اداسیوں کی رت | شیح شیری
udasiyon ki rut

نظم

اداسیوں کی رت

تبسم کاشمیری

;

اداسیوں کی رت بھی کیا عجیب ہے
کوئی نہ میرے پاس ہے

تم تو میرے پاس ہو
مگر کہاں

ہوا کی خوشبوؤں میں
سبز روشنی کی دھول میں

دل میں بجتی تالیوں کے پاس
اداسیوں کے زرد بال جل اٹھے تھے اس گھڑی

تمہاری سرد یاد کے سفید پھول کھل اٹھے تھے جس گھڑی
نظر میں اک سفید برف گر رہی تھی دور تک

سرخ بیلیں کھل اٹھی تھیں یاد کی چھتوں کے پاس
اداسیوں کی رت بھی کیا عجیب ہے

یاد کی چھتوں پہ سرخ پھول ہیں
دور دور سبز روشنی کی دھول ہے

اور برف گر رہی ہے خامشی کے سرد جنگلوں کے پاس