EN हिंदी
اداسی ایک لڑکی ہے | شیح شیری
udasi ek laDki hai

نظم

اداسی ایک لڑکی ہے

انوار فطرت

;

دسمبر کی گھنی راتوں میں
جب بادل برستا ہے

لرزتی خامشی
جب بال کھولے

کاریڈوروں میں سسکتی ہے
تو آتش دان کے آگے

کہیں سے وہ دبے پاؤں
مرے پہلو میں آتی ہے

اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے
میرے بال سلجھاتے ہوئے

سرگوشیوں میں درد کے قصے سناتی ہے
جولائی کی دوپہریں

ممٹیوں سے جب اتر کر
آنگنوں میں پھیل جاتی ہیں

باتوں کے بسکٹ پھول جاتے ہیں
تو وہ بھی جنگلی بیلوں سے

اٹھتی خوشبوؤں سے جسم پاتی ہے
مرے نزدیک آتی ہے

مری سانسوں کی پگڈنڈی پہ
دھیرے دھیرے چلتی ہے

مرے اندر اترتی ہے