EN हिंदी
اداسی | شیح شیری
udasi

نظم

اداسی

ابرارالحسن

;

ابھی جنگ جاری ہے
جلنے لگیں بستیاں

اٹھ رہا ہے دھواں
ایک خوں ریز دریا درختوں کو سیراب کرتا ہے

جنگل مئے ناب سے کتنا مسرور ہے
جنگل جاری کہاں ہے

وہ دیکھو پہاڑوں کے دروں میں بھگدڑ مچی ہے
بکھرتی ہوئی فوج کے سورما

پیٹھ پر زخم کھانے کے شیدا
انہیں کی ہے میراث ساری اداسی

جو بستی کے کھیتوں میں
گندم کے خوشوں میں چھپ کر

شکم میں اترتی ہے
تاریک کمروں میں منہ کو چھپاتی ہے

آواز دے کوئی آواز دے
آؤ برفیلی چوٹی پہ دوڑیں

سمندر میں غوطے لگائیں
تعاقب کریں موت کا

اور ایسا بھی ہو
زندگی تحفۂ‌ جنگ

دوڑاتے گھوڑے سے
بانہوں میں لے کر نکل جائیں سرپٹ کہیں

دو گھڑی کے لئے
ابھی جنگ جاری ہے

جنگل کو سیراب کرتا ہے خوں ریز دریا
کہ جنگل کا قانون بھی تو یہی ہے