کتنی آسانی سے اس نے رکھ دیا
روٹی کا پہیا
وقت کے چکر کے بالکل سامنے
گولائیوں کے درمیاں پھر ایک ٹکڑا
تاڑ کے لمبے تنے کا
جس نے اپنے بیج سے باہر نکلنے کی سزا میں
ایک ہی نقطے پہ دائم گھومنے
اور رتھ کے نیچے آ کے کچلے جانے والی بوٹیوں کی
مسخ لاشوں سے گزرنے کو مقدر کر لیا
وہ تو ایسے مشغلوں میں مست ہے
جس سمت چاہے جائے گھومے یا نئی سمتیں بنائے
میری کچی شش دری کٹیا کے باہر
اک کھلا میدان ہے
میدان جس کے اک سرے سے دوسرے کو دیکھنے کی دوربیں بھی
صرف اس کے کھیل کا سامان ہے
کھیل گرچہ کھیل کی حد تک بہت اچھا لگا
میں نے بھی دیکھا
تو اپنی تالیوں کا تڑتڑاتا گیت اس کی اوک میں ڈالا
خوشی سے بھر دیا جھولی کو اس کی
آنکھ سے امڈے سمندر آسمانوں سے گلے ملنے لگے
پیاس لیکن بجھ نہیں پائی کسی بھی طور اس کی
خود نمائی کی ستائش میں تڑپتی زندگی دائم رہے گی
ہاں مگر اک عمر کچی بھربھری آدم کی مٹی سے بنی
کھیل کی اک عمر ہوتی ہے
جہاں سارے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں چھنک سے ایک دن
سانس روکے سنسناتی خالی رہ جاتی ہیں گلیاں وقت کی
سونی کلائی کی طرح
جس پر کبھی شیشے کی رنگیں چوڑیاں اٹکھیلیاں کھیلی نہ ہوں
لاڈلے کنچوں سی عمریں
تالیوں کی پھول جھڑیوں میں بکھر کر ٹوٹتی ہیں
اور اس کے آسمانی منظروں کی اک دلہن
دیکھتے ہی دیکھتے چرخا سجا کر بیٹھ جاتی ہے
دکھوں کی برف جیسی روئی کا
آؤ اپنے خواب کے ریشم سے باہر
چرخ نیلی فام کے ٹکڑے چنیں
نظم
ٹوٹم ٹوٹ گیا
علی محمد فرشی