تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے
تو باغ میں جس وقت لچکتی ہوئی آئے
ساون کی طرح جھوم کے پودوں کو جھمائے
جوڑے کی گرہ کھول کے بیلا جو اٹھائے
پربت پہ برستی ہوئی برکھا کو نچا دے
تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے
آنکھوں کو جھکائے ہوئے پلو کو اٹھائے
مکھڑے پہ لیے صبح کے مچلے ہوئے سائے
لیتی ہوئی انگڑائی اگر گھاٹ پہ آئے
گنگا کی ہر اک لہر میں اک دھوم مچا دے
تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے
کرنوں سے گرے اوس جو ہو تیرا اشارا
مٹی کو نچوڑے تو بہے رنگ کا دھارا
ذرے کو جو روندے تو بنے صبح کا تارا
کانٹے پہ جو تو پاؤں دھرے پھول بنا دے
تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے
نظم
تو گھر سے نکل آئے تو
جوشؔ ملیح آبادی