تمہیں پیار ہے، تو یقین دو،
مجھے نہ کہو، تمہیں پیار ہے، مجھے دیکھنے کی نہ ضد کرو،
تمہیں فکر ہو، مرے حال کی،
کوئی گفتگو ہو ملال کی،
جو خیال ہو، نہ کیا کرو،
نہ کہا کرو مری فکر ہے
میں عزیز تر ہوں جہان سے
یا ایمان سے، نہ کہا کرو،
نہ لکھا کرو مجھے ورق پر، کسی فرش پر،
نہ اداس ہو، نہ ہی خوش رہو
مجھے سوچ کر، یا کھروچ کر، میری یاد کو نہ آواز دو،
مجھے خط میں لکھ کے خداؤں کا نہ دو واسطہ
تمہیں پیار میں نہ قرار ہے، مجھے اس زباں کا یقین نہیں
کچھ اور ہو، جو سنا نہ ہو، جو کہا نہ ہو، جو لکھا نہ ہو
تو یقین ہو!
رکو اور تھوڑا سا ضبط لو، مجھے سوچ لینے کو وقت دو،
چلو یوں کرو مرے واسطے کہ بلند و بالا عمارتوں کا لو جائزہ
جو فلک کو بوسہ لگا رہی ہوں عمارتیں،
جو تمہارے پیار سے لے رہی ہوں مشابہتیں
جو ہو سب سے زیادہ بلند و بالا الگ تھلگ
اسے سر کرو،
اسے چھت تلک، ہاں یہیں رکو، یہ وہ ہی ہے چھت،
ذرا سانس لینے کو قیام لو، مرا نام لو،
تو سفر کی ساری تھکن یہیں پہ اتار لو،
اب! مرے تمہارے جو درمیاں میں ہے فاصلہ، وہ ذرا سا ہے،
وہ مٹا سکو، تو غرور ڈھاتی بلندیوں کو پھلانگ دو!
تمہیں پیار ہے تو یقین دو!!
نظم
تمہیں پیار ہے، تو یقین دو،
عارف اشتیاق