EN हिंदी
تمہیں کھوجتی ہیں جو آنکھیں | شیح شیری
tumhein khojti hain jo aankhen

نظم

تمہیں کھوجتی ہیں جو آنکھیں

عارفہ شہزاد

;

تمہیں کھوجتی ہیں جو آنکھیں۔۔۔
تم ان میں کسے دیکھتے ہو؟

کوئی گم شدہ مسکراہٹ۔۔۔
جو دل کے خلاؤں کو بھرنے لگی ہے

یا اک دھن کہ جس پر
یہ ٹھہری ہوئی منجمد زندگی، رقص کرنے لگی ہے!

تمہارے بھی من میں پرندوں کی چہکار پھر سے اترنے لگی ہے؟
کوئی بھولی بسری سی سرگوشی۔۔۔

ہونٹوں پہ کھلنے لگی ہے؟
کہو! زندگی پھر سے ملنے لگی ہے؟

سنہری وہ آنکھیں جو لو دے رہی ہیں
وہ قندیل جاں ہیں؟

کہ بھیدوں بھری روشنی کا نشاں ہیں؟
کبھی طاق جاں پر سنبھالے تھے تم نے معانی جو گم ہو گئے تھے

کہو! تم نے پھر بھی انہیں پا لیا ہے؟
کہ پھر اک نئی نظم کی خواہشوں نے تمہیں جا لیا ہے؟

یہ کس کو پتا ہے؟
نہ جانے تم آنکھوں میں ان کی۔۔۔

کسے ڈھونڈتے ہو