بے بسی کا عذاب
اداس رستوں پہ چلنے والو
اداسیوں کا سفر مقدر ہے
تم یہ رستے بدل بھی لو تو نشان منزل
تمہاری آنکھوں کی تیرگی میں
لپٹ کے بے نام ہو رہے گا
یہ شہر یہ بستیاں یہ قریے
بس ایک بے نام خوف کی زد میں آ گئے ہیں
تمہاری آنکھوں میں
کن خزاؤں کی زرد ویرانیاں بسی ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ زہر بے رنگ کی تہیں کس لئے جمی ہیں
تمہارے چہروں کا خاک سا رنگ
کون سے درد کا اثر ہے
اداس رستوں پہ چلنے والو
اگر امیدوں کے پیڑ پت جھڑ کی زد میں ہیں
تو انہیں جڑوں سے اکھاڑ پھینکو
تمہاری آنکھوں میں زرد ویرانیاں بسی ہیں
تو اپنی آنکھوں نکال ڈالو
تمہارے شہروں میں خوف آسیب بن گیا ہے
تو سب مکانوں کو راکھ کر دو
مگر کبھی یوں نہ ہو سکے گا
کہ جو بنانے کی آرزو میں بگاڑتے ہیں
وہ ہاتھ ہی بے بسی کے پنجرے میں بند ہیں
ان اداس رستوں پہ چلنے والو
مجھے بھی ہم راہ لے کے چلنا
کہ میں اکیلا کہاں رہوں گا
نظم
تمہاری منزل کہیں نہیں ہے
فیاض تحسین