EN हिंदी
تمہاری آنکھیں | شیح شیری
tumhaari aankhen

نظم

تمہاری آنکھیں

درشکا وسانی

;

تمہاری آنکھیں تم وہیں تو بستے ہو
ایک جسم کو دنیا نے تمہارا نام دیا

تمہیں پایا تمہاری آنکھوں میں ہے میں نے
ان دو پلکوں نے چھوا ہے مجھے

تمہاری انگلیوں کے جادوئی اسپرش سی
میرے چہرے کی نرم گلابی گلیوں میں کھوئی

میری زلفوں میں الجھی ہوئی ریشم سے تر بہ تر یہ آنکھیں
کبھی ہونٹھ بن کر تمہاری سانسوں کی آہٹ کو

چپکے سے میرے کانوں میں رکھ جاتی ہے
تمہارے ذہن میں پنپ رہے ہر

نازک جذبات کی خوشبو ہے تمہاری آنکھیں
میرے کانپتے ہونٹوں پہ تمہارے ہونٹوں کے

نشان ہے تمہاری آنکھیں
وہی تو ہے جو ہتھیلیاں بن کر مضبوطی سے

میرا ہاتھ تھامے ہوئے ہے اب تک
تمہارے دل سی دھڑکتی ہے تمہاری آنکھیں

میرے اشکوں کا ہر ایک قطرہ
ان کی نمی میں ڈوب کر ایک ہو جاتا ہے

رات کے سناٹے میں مضبوط باہیں بن کر
اپنی ٹھنڈک میں سلا دیتی ہے

تمہارے قدم بن کر ساتھ چلی ہے جیسے تم چلتے
اس نے لوٹا نہیں لوٹایا ہے مجھے اپنے آپ کو

ان آنکھوں میں ایک گھر بسایا ہے میں نے
تمہارے جسم میں جڑی ہے مگر

میری ہے تمہاری آنکھیں