تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم
منتشر دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارا نہیں
جسم خستہ ہے، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بار سنگ ستم
بار سنگ ستم، بار کہسار غم
جس کو چھو کر سبھی اک طرف ہو گئے
بات کی بات میں ذی شرف ہو گئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کھلے گا نہ کیا
اس کف نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لوٹے گا کیا
شور آواز حق، نعرۂ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہوا سو ہوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہوا سو ہوا
سود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو، ماتم جسم و جاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
نظم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
فیض احمد فیض