EN हिंदी
تم یہاں دبکے ہوئے ہو | شیح شیری
tum yahan dubke hue ho

نظم

تم یہاں دبکے ہوئے ہو

مظفر حنفی

;

میں خلاؤں میں پھرا
پاتال میں بھٹکا

سمندر چھان مارے
وسعت صحرا کو مٹھی میں لپیٹا

چاند سورج کھوند ڈالے
اپنی گردن پر لیا تاروں کا خون

وقت کی لاکھوں طنابیں کاٹ دیں
آخرش

تھک ہار کر
(جب تم نہ مل پائے تو)

آ لیٹا ہوں
اس اندھی گپھا میں

تم یہاں دبکے ہوئے ہو!