EN हिंदी
تم سے شکایت کیا کروں | شیح شیری
tum se shikayat kya karun

نظم

تم سے شکایت کیا کروں

بہزاد لکھنوی

;

ہوتا جو کوئی دوسرا
کرتا گلہ میں درد کا

تم تو ہو دل کا مدعا
تم سے شکایت کیا کروں

دیکھو ہے بلبل نالہ زن
کہتی ہے احوال چمن

میں چپ ہوں گو ہوں پر محن
تم سے شکایت کیا کروں

مانا کہ میں بے ہوش ہوں
پر ہوش ہے پرجوش ہوں

یہ سوچ کر خاموش ہوں
تم سے شکایت کیا کروں

تم سے تو الفت ہے مجھے
تم سے تو راحت ہے مجھے

تم سے تو محبت ہے مجھے
تم سے شکایت کیا کروں