ایک آنچل ہے
جو پھیلا ہے افق تا بہ افق
ایک سایہ ہے جو چھایا ہے دل وحشی پر
نغمگی ایک طرح پھوٹتی رہتی ہے کہیں
خامشی رنگ لئے گھومتی رہتی ہے کہیں
ڈھونڈھتا رہتا ہوں
لہجوں میں کبھی باتوں میں
ڈھونڈھتا رہتا ہوں
خوشبو میں
کبھی چاندنی راتوں میں تجھے
تجھ کو پاؤں تو بہت دل کو سکوں آئے گا
تجھ سے مل لوں گا تو قرنوں میں بدل جاؤں گا
نظم
تم سے
علی ظہیر لکھنوی