شگفتگی کا لطافت کا شاہکار ہو تم
فقط بہار نہیں حاصل بہار ہو تم
جو ایک پھول میں ہے قید وہ گلستاں ہو
جو اک کلی میں ہے پنہاں وہ لالہ زار ہو تم
حلاوتوں کی تمنا، ملاحتوں کی مراد
غرور کلیوں کا، پھولوں کا انکسار ہو تم
جسے ترنگ میں فطرت نے گنگنایا ہے
وہ بھیرویں ہو، وہ دیپک ہو وہ ملہار ہو تم
تمہارے جسم میں خوابیدہ ہیں ہزاروں راگ
نگاہ چھیڑتی ہے جس کو وہ ستار ہو تم
جسے اٹھا نہ سکی جستجو وہ موتی ہو
جسے نہ گوندھ سکی آرزو وہ ہار ہو تم
جسے نہ بوجھ سکا عشق وہ پہیلی ہو
جسے سمجھ نہ سکا پیار بھی وہ پیار ہو تم
خدا کرے کسی دامن میں جذب ہو نہ سکیں
یہ میرے اشک حسیں جن سے آشکار ہو تم
نظم
تم
کیفی اعظمی