EN हिंदी
تم کہو تو کہوں | شیح شیری
tum kaho to kahun

نظم

تم کہو تو کہوں

جاوید انور

;

حرف کے تار میں جتنے آنسو پروئے گئے
درد ان سے فزوں تھا

سنو تو کہوں
تم کہو تو کہوں ظرف کی داستاں

کھیتیوں کو گلہ بادلوں سے نہیں سورجوں سے بھی تھا
بازووں سے بھی تھا ہل پکڑنے سے پہلے ہی جو تھک گئے

کشت زرخیز پر آب نمکین جم سا گیا
رقص تھم سا گیا

ایڑیاں گھومتے گھومتے رک گئیں
اشک رخسار کی گھاٹیوں سے گرا منجمد ہو گیا

رنگ خوشبو بنا تو ہوا چل پڑی
خواب ناطہ بنا تو کھلی کھڑکیوں میں سلاخیں اگیں

ہاتھ زخمی ہوئے
کس کے کشکول سے کتنے سکے گرے

ہجر کیسا پرندے کی آنکھوں میں تھا
گھاؤ کیسے پہاڑوں کے سینے پہ تھے

آئنہ گنگ تھا
فرش پر عکس دھم سے گرا

کرچیاں ہو گیا
تم کہو تو گنوں

تم کہو تو چنوں
تم کہو تو سنوں ان کھلے پھول کی دھڑکنیں

گمشدہ تتلیوں کی صدا
زرد ٹہنی کے ہونٹوں پہ رکھی ہوئی بد دعا

آسمانوں کی دہلیز پر پھینک دوں
تم کہو تو دکھاؤں تمہیں

اک تماشہ کہ جو میری مٹھی میں ہے
ایک گردن کہ جو غم کے پھندے میں ہے

سانس چلتی بھی ہے اور چلتی نہیں
جاں نکلتی نہیں