EN हिंदी
تم کہاں ہو | شیح شیری
tum kahan ho

نظم

تم کہاں ہو

محبوب خزاں

;

میں تمہاری روح کی انگڑائیوں سے آشنا ہوں
میں تمہاری دھڑکنوں کے زیر و بم پہچانتا ہوں

میں تمہاری انکھڑیوں میں نرم لہریں جاگتی سی دیکھتا ہوں
جیسے جادو جاگتا ہو

تم امر ہو تو لچکتی ٹہنیوں کی مامتا ہو
تم جوانی ہو تبسم ہو محبت کی لتا ہو

میں تمہیں پہچانتا ہوں تم مری پہلی خطا ہو
لہلہاتی جھومتی پھلواریوں کی تازگی ہو بے ادائی کی ادا ہو

تیز منڈلاتی ابابیلوں کے ننھے بازوؤں کا حوصلہ ہو
پھول ہو اور پھول کے انجام سے نا آشنا ہو

ڈالیوں پر پھولتی ہو جھولتی ہو دیکھتی ہو بھولتی ہو
ہر نئے فانوس پہ گرتی ہوئی پروانگی ہو

اور خود بھی روشنی ہو
زندگی ہو زندگی کے گرد چکر کاٹتی ہو

میں تمہیں پہچانتا ہوں تم محبت چاہتی ہو
خود کو دیکھو اور بھری دنیا کو دیکھو اور سوچو

اور سوچو تم کہاں ہو