EN हिंदी
تم جو سیانے ہو گن والے ہو | شیح شیری
tum jo siyane ho gun wale ho

نظم

تم جو سیانے ہو گن والے ہو

ادا جعفری

;

ہیرے موتی لعل جواہر رولے بھر بھر تھالی
اپنا کیسہ اپنا دامن اپنی جھولی خالی

اپنا کاسہ پارہ پارہ اپنا گریباں چاک
چاک گریباں والے لوگو تم کیسے گن والے ہو

کانٹوں سے تلوے زخمی ہیں روح تھکن سے چور
کوچے کوچے خوشبو بکھری اپنے گھر سے دور

اپنا آنگن سونا سونا اپنا دل ویران
پھولوں کلیوں کے رکھوالو تم کیسے گن والے ہو

طوفانوں سے ٹکر لے لی جب تھامے پتوار
پیار کے ناطے جس کشتی کے لاکھوں کھیون ہار

ساحل ساحل شہر بسائے ساگر ساگر دھوم
مانجھی اپنی نگری بھولے تم کیسے گن والے ہو

آنکھوں کرنیں ماتھے سورج اور کٹیا اندھیاری
کیسے لکھ لٹ راجہ ہو تم سمجھیں لوگ بھکاری

شیشہ سچا اجلا جب تک اونچا اس کا بھاؤ
اپنا مول نہ جانا تم نے کیسے گن والے ہو

جن کھیتوں کا رنگ نکھارے جلتی تپتی دھوپ
ساون کی پھواریں بھی چاہیں ان کھیتوں کا روپ

تم کو کیا گھاٹا دل والو
تم جو سچے ہو گن والے ہو