دن نکلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
شہر بستے ہیں اجڑ جاتے ہیں
دستکیں آہنی دروازے پر
سر کو ٹکرا کے پلٹ جاتی ہیں
گنبد خامشی گرتا ہی نہیں
چلتی رہتی ہے ہوا
کھیتوں میں دالانوں میں
اور اپنے ہی تلاطم میں اتر جاتی ہے
ہر طرف پھول بکھر جاتے ہیں
دل کی مٹی پہ کوئی رنگ اترتا ہی نہیں
آنکھ نظارۂ موہوم سے ہٹتی ہی نہیں
ذہن اس حجلۂ تاریکی و تنہائی میں
اپنے کانٹوں پہ پڑا رہتا ہے
وقت آتا ہے گزر جاتا ہے
تم جو آتے ہو تو ترتیب الٹ جاتی ہے
دھند جیسے کہیں چھٹ جاتی ہے
نرم پوروں سے کوئی ہولے سے
دل کی دیوار گرا دیتا ہے
ایک کھڑکی کہیں کھل جاتی ہے
آنکھ اک جلوۂ صد رنگ سے بھر جاتی ہے
کوئی آواز بلاتی ہے ہمیں
تم جو آتے ہو
تو اس حبس دکھن کے گھر سے
رنج آئندہ و رفتہ کی تھکاوٹ سے
نکل لیتے ہیں
تم سے ملتے ہیں
تو دنیا سے بھی مل لیتے ہیں
نظم
تم جو آتے ہو
ابرار احمد