سردی کی دھوپ
تمہارے بدن کی طرح
گرم ہے
میں نے کاغذ کی کشتی بنا کر
اس پر تیرا اور اپنا نام لکھ کر
اسے چشمہ میں ڈالا ہے
جس میں سے
تم ابھی نہا کر باہر نکلی ہو
آرام کرسی پر بیٹھ کر
بال سکھاتے ہوئے
تم مسکرا رہی ہو
میرے ہاتھ میں ایک سیب ہے
جس کو تم جہاں سے بھی کاٹو گی
وہاں سے میٹھا نکلے گا
نظم
تم جہاں سے سیب کاٹو گی
ارشاد شیخ