تم بدن کی سطح کے تیراک بننا چاہتے تھے
تم تھے نظاروں کے ساحل پر تماشہ بین اور شوقین
تم پہنچنا چاہتے تھے پیرہن کے پار
جلد تک محدود تھا ذوق جمال
گوشت تھا مقصود پرواز خیال
انکشاف جسم تھا افکار عالی کا کمال
دامن و بند قبا انگیا دوپٹے پائنچے
تھے تمہاری شاعری کے مشغلے
اور تمہارے مسئلے اور مرحلے
اور ہم ہیں روح کی احساس کی گہرائیوں کے غوطہ خور
زندگی میں اور ہم میں راز اب اتنے نہیں
زندگی کیا اور دنیا کیا ہمارے سامنے ہیں بے حجاب
جلد کیا اور گوشت کیا اور جسم کیا
ایکس رے اسکرین پر ہیں ہڈیاں تک بے لباس
بارہا دیکھی ہوئی چیزوں کو پھر سے دیکھنا
بارہا بھوگی ہوئی چیزوں کو پھر سے بھوگنا
بھوگ کر خوش ہونا کڑھنا، تلملانا سوچنا
سوچنا اور سوچ کے کارن کو پیچھے چھوڑ کر
ناپتے پھرنا ازل سے تا ابد
سوچ کا صحرائے نا پیدا کنار
آرزوئے دید کے شالوں میں تم چلتے رہے
دید کے شعلوں میں ہم لپٹے ہوئے ہیں
تم پرائی آگ میں جلتے رہے
اور ہم جلتے ہیں اپنی آگ میں
اور اب اپنے پرائے میں کہاں ہے کوئی بھید
ایک ہی آکاش اپنے بازوؤں میں بھینچتا ہے
ایک تخت الارض چشمہ سب جڑوں کو سینچتا ہے
ایک ہی شعلہ نسوں کو کھینچتا ہے
نظم
تم اور ہم
عمیق حنفی