تم آسماں کی طرف نہ دیکھو
یہ چاند یہ کہکشاں یہ تارے
یوں ہی چمکتے رہیں گے سارے
یوں ہی ضیا بار ہوں گے دائم
یہی رہے گا نظام قائم
تم آسماں کو ہو دیکھتے کیا
کرو نظارہ دل حزیں کا
غم محبت کے داغ دیکھو
یہ ٹمٹماتے چراغ دیکھو
ہے چند روزہ نمود ان کی
نہیں ہے کچھ اعتبار ہستی
یہ شمع خاموش ہو نہ جائے
یہ بخت بیدار سو نہ جائے
تم آسماں کی طرف نہ دیکھو
یوں ہی سدا جلوہ بار ہوگی
ہزار کیا لاکھ بار ہوگی
ہٹا لو آنکھ اپنی چرخ پر سے
نظر ملاؤ مری نظر سے
ان آنسوؤں کی بہار دیکھو
رواں ہے آبشار دیکھو
ہے چند ہی دن کی یہ روانی
رہے گی کب تک یہ زندگانی
یہ قلب خوں ہو کے بہہ نہ جائے
یہ چشمہ بہہ بہہ کے رہ نہ جائے
تم آسماں کی طرف نہ دیکھو
نظم
تم آسماں کی طرف نہ دیکھو
صوفی تبسم