EN हिंदी
تم آؤ گے | شیح شیری
tum aaoge

نظم

تم آؤ گے

شائستہ حبیب

;

میرے گھر کی دیواریں اب مجھ کو چاٹ رہی ہیں
سارے شہر کی مٹی میں جو میرا حصہ تھا

وہ بھی لوگوں میں تقسیم ہوا ہے اپنی اس کی قبر پر میری آنکھیں
اڑتی دھول کی

خوشبو تھامے لٹک کر لیٹ گئی ہیں
ایسے سمے اب کون آتا ہے

ٹیڑھی ترچھی انگلیوں میں سارے وفا کے دھاگے ہلکے ہلکے ٹوٹ رہے ہیں
ہڈیوں کے جلنے کی بو بستر کی شکنوں میں گھلنے لگی ہے

دروازوں کو بند کرو یا کھولو
ہوا میں شعلے مدھم مدھم راکھ کی صورت سوتے جاتے ہیں

اور ہم اکھڑی سانس کے وقفے میں لفظوں کے تعویذ گلے میں ڈالے
تصویروں سے پوچھتے ہیں تم آؤ گے

آؤ گے تو اپنی آوازوں کے سائے بھی لے جانا
سارے خواب اور پرچھائیں تمہاری سالگرہ کا تحفہ ہیں

ان پر نئے چمکیلے ورق لگا کر
ایسی ہی لڑکی کو بھجوانا جس کو تم نے اپنا کہا ہو

وہ لڑکی بھی دروازوں کی دروازوں سے اب حرف وفا کو سننے لگی ہے
اس کو تم مت ترسانا اس کے پاس چلے جانا

یا اس کو پاس بلا لینا وہ آ جائے گی
لڑکی ہے نا کہنا کیسے ٹالے گی