کسے یقیں تھا کہ پلٹے گی رات کی کایا
کٹی تو رات مگر ایک ایک پل گن گن
افق پہ آئی بھی تھی سرخیٔ سحر لیکن
سحر کے ساتھ ہی ابر سیاہ بھی آیا
سحر کے ساتھ ہی حد نگاہ تک چھایا
یہ کیا غضب ہے کہ اب تیرہ تر ہے رات سے دن
زمانہ شوخ شعاعو اداس ہے تم بن
بس اک جھلک کہ اٹھے سر سے یہ گھنا سایا
یہ ڈر بھی ہے کہ شعاعیں نہ جگمگا اٹھیں
کوئی شعاع جو اٹھی بھی لے کے انگڑائی
اور اٹھ کے عالم تاریک میں وہ در آئی
تو آ کے دیکھے گی ہے نور و بے بصر آنکھیں
نہیں ہے جن کے لیے فرق نور و ظلمت میں
کہ اب ہیں خواب عدم میں سحر کے سودائی
نظم
طلوع
ضیا جالندھری