EN हिंदी
طلوع سے پہلے | شیح شیری
tulua se pahle

نظم

طلوع سے پہلے

حمیدہ شاہین

;

کبھی
یوں ہی

کسی شب چاندنی کا ہاتھ لگتے ہی
بنا دستک کے کھل جاتا ہے اک کمرے کا دروازہ

دریچوں سے کوئی مدہوش کن خوشبو نکلتی ہے
فضا میں مسکراتی ہے

ہیولے سے کئی پردوں پہ بنتے ہیں بگڑتے ہیں
کوئی موہوم آہٹ پھیل جاتی ہے سماعت پر

کتابیں جاگ اٹھتی ہیں کوئی صفحے الٹتا ہے
ہوا میں سرسراتے ہیں ادھوری نظم کے ٹکڑے

فضا میں تیرتے ہیں ہر طرف بھٹکے ہوئے مصرعے
کہیں مدھم سروں کا ساز کوئی چھیڑ دیتا ہے

اندھیرے کے سمندر میں کوئی بجرا سا چلتا ہے
پرانے گیت بہتے ہیں

اداسی تال دیتی ہے
کبھی شیشوں پہ ہلکی نیل گوں لہریں مچلتی ہیں

کسی آواز کا سایہ کھلی کھڑکی میں آتا ہے
کرن کوئی ذرا سا جھلملا کر ٹوٹ جاتی ہے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا
اندھیرے میں بکھرتا کیا ہے کیا ترتیب پاتا ہے