EN हिंदी
تجھے تحریر کیا | شیح شیری
tujhe tahrir kiya

نظم

تجھے تحریر کیا

ندیم گلانی

;

ایک اک حرف سجا کر تجھے تحریر کیا
خون کی ندیاں بہا کر تجھے تحریر کیا

درد میں عمر بتا کر تجھے تحریر کیا
اب تو کہتا ہے مرا کوئی بھی کردار نہیں

میرا کیا ہے، میں انہی راستوں میں رہتا ہوں
مجھ کو یہ حکم ہے جا، جا کے پتھروں کو تراش

میں ازل سے اسی اک کام میں لایا گیا ہوں
میں کبھی پیر، پیمبر، کبھی شاعر کی صفت

تیرے بے فیض زمانے میں اتارا گیا ہوں
میں تو بہتا ہوا دریا ہوں، سمندر بھی ہوں

میں تو جگنو بھی ہوں، تتلی بھی ہوں، خوشبو بھی ہوں
میں تو جس رنگ میں بھی آیا ہوں، چھایا گیا ہوں

تو اگر مجھ کو نہ سمجھا تو اے میرے ہمدم
میں کسی روز ترے ہاتھ سے کھو جاؤں گا

اور تو وقت کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
ہاتھ ملتا ہوا روتا ہوا رہ جائے گا