EN हिंदी
ٹورسٹ | شیح شیری
tourist

نظم

ٹورسٹ

قاضی سلیم

;

ہمارے پاس کچھ نہیں
جاؤ اب ہمارے پاس کچھ نہیں

بیتے ست جگوں کی سرد راکھ میں
اک شرار بھی نہیں

داغ داغ زندگی پہ سوچ کے لباس کا
ایک تار بھی نہیں

دھڑک دھڑک دھڑک دھڑک
جانے تھاپ کب پڑے

ننگے وحشیوں کے غول شہر کی
سڑک سڑک پہ ناچ اٹھیں

مولی گاجروں کی طرح سر کٹیں
برف پوش چوٹیوں پہ سیکڑوں برس

پرانے گدھ پروں کو پھڑپھڑا رہے ہیں
اب ہمارے پاس کچھ نہیں

کھنڈر کھنڈر تلاش کر چکے
سب خزانے ختم ہو گئے

تمہارے میوزیم میں سج گئے
اب ہمارے پاس کچھ نہیں

سپیرے راجے جادوگر
ایر انڈیا کا بٹلری نشان بن گئے

جاؤ اب ہمارے پاس کچھ نہیں