خواب کچھ بکھرے ہوئے سے خواب ہیں
کچھ ادھوری خواہشیں
تشنہ لب آوارگی کے روز و شب
ایک صحرا چار سو بکھرا ہوا
اور قدموں سے تھکن لپٹی ہوئی
ایک گہری بے یقینی کے نقوش
جانے کب سے دو دلوں پر ثبت ہیں
رات ہے اور وسوسوں کی یورشیں
یہ اچانک
طاق پہ جلتے دیے کو کیا ہوا
صبح ہونے میں تو خاصی دیر ہے
آئنہ اور عکس میں دوری ہے کیوں
روح پیاسی ہے ازل سے
درمیاں تاخیر کا اک دشت ہے
ناگہاں پھر نا گہاں
یہ وہی دستک وہی آہٹ تو ہے
ہاں مگر ان دوریوں مجبوریوں کے درمیاں
کون آئے گا چلو پھر بھی چلیں
شاید اس کو یاد آئے کوئی بھولی بسری بات
وہ دریچہ بند ہے تو کیا ہوا
چاند ہے اس بام پر جاگا ہوا
نظم
تشنہ لب آوارگی
خالد معین