EN हिंदी
طلسم سفر | شیح شیری
tilism-e-safar

نظم

طلسم سفر

شمیم قاسمی

;

ایک دہشت زدہ
نیم تاریک جنگل میں

عقل و خرد کی ضرورت نہیں
شاعری اور فکشن کی

پرچھائیوں کا میں پیچھا کروں
اور سپنے بنوں

ایسی عادت نہیں
نیم تاریک جنگل کے

لمبے سفر پہ جو نکلے ہو تم
تو سن لو

نیم تاریک جنگل میں چاروں طرف
ابوالہول سے واسطہ بھی پڑے گا تمہارا

کئی شکل میں
ورغلائیں گی تم کو چڑیلیں

اژدہوں کے علاقوں سے
گزرو گے تم

جسم نیلا بھی ہوگا تمہارا
مگر آنکھ کی پتلیوں میں

زندگی کا سویرا منور رہے گا
یہ الگ بات تم

رقص ابلیس کے دائرے میں رہو گے
نیم تاریک جنگل کے

سارے بھیانک درندوں سے تنہا
نہتے لڑو گے

تم نہ ہرگز ڈرو گے
استفادہ کرو گے مرے تجربوں سے

تو پاؤ گے منزل
سمندر کی موجیں

الجھتی ہیں برسوں بھنور سے
تو پاتی ہیں منزل

نیم تاریک جنگل
رقص ابلیس

کالی چڑیلیں
خوف زا جس قدر ہو

طلسم سفر
اس کو منزل کی معراج سمجھو