EN हिंदी
ٹین کا ڈبہ | شیح شیری
Tin ka Dibba

نظم

ٹین کا ڈبہ

وزیر آغا

;

سمندر کے بوسوں سے ہاری ہوئی ریت
ریت پر ٹوٹی پھوٹی پرانی سیہ رنگ چیزوں کے انبار میں

ایک پچکا ہوا ٹین کا زرد ڈبہ
سیاہی کے برہم سمندر نے جس کو اچھالا

سیاہی کے بے نام ساحل نے جس کو سنبھالا
اندھیرے میں بکھرے ہوئے مردہ لمحوں کے اک ڈھیر میں

پا شکستہ سی اک ساعت نیم جاں
کالے قرنوں کے سفر مسلسل کی اک داستاں

کالے قرنوں کی وہ داستاں
تیرگی کی چٹانوں سے ٹکرائی

ٹکرا کے روشن ہوئی
گھپ اندھیرے میں ابھریں لکیریں

لکیروں سے بنتی گئیں صورتیں
پیڑ بادل مکاں ایک روشن ندی

اور روشن ندی کے کنارے چمکتی ہوئی گھاس پر
دودھیا اون کی دھجیاں

روشنی کا ابھرتا ہوا اک جہاں
تیرگی اب کہاں ہے

تڑپتی ہوئی ریت پر ہر طرف
شوخ کرنوں کا ایک جال سا تن گیا ہے

چمکتا ہوا ٹین کا زرد ڈبہ
شعاعوں کا لاوا اگلنے لگا ہے

ابلتے ہوئے روشنی کے سمندر میں ڈھل کر
زمیں سے فلک تک اچھلنے لگا ہے