ظالم
جشن ہے ماتم امید کا آؤ لوگو
مرگ انبوہ کا تہوار مناؤ لوگو
عدم آباد کو آباد کیا ہے میں نے
تم کو دن رات سے آزاد کیا ہے میں نے
جلوۂ صبح سے کیا مانگتے ہو
بستر خواب سے کیا چاہتے ہو
ساری آنکھوں کو تہ تیغ کیا ہے میں نے
سارے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ہے میں نے
اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حنا
فصل گل آئے گی نمرود کے انگار لیے
اب نہ برسات میں برسے گی گہر کی برکھا
ابر آئے گا خس و خار کے انبار لیے
میرا مسلک بھی نیا راہ طریقت بھی نئی
میرے قانوں بھی نئے میری شریعت بھی نئی
اب فقیہان حرم دست صنم چومیں گے
سرو قد مٹی کے بونوں کے قدم چومیں گے
فرش پر آج در صدق و صفا بند ہوا
عرش پر آج ہر اک باب دعا بند ہوا
مظلوم
رات چھائی تو ہر اک درد کے دھارے چھوٹے
صبح پھوٹی تو ہر اک زخم کے ٹانکے ٹوٹے
دوپہر آئی تو ہر رگ نے لہو برسایا
دن ڈھلا خوف کا عفریت مقابل آیا
یا خدا یہ مری گردان شب و روز و سحر
یہ مری عمر کا بے منزل و آرام سفر
کیا یہی کچھ مری قسمت میں لکھا ہے تو نے
ہر مسرت سے مجھے عاق کیا ہے تو نے
وہ یہ کہتے ہیں تو خوشنود ہر اک ظلم سے ہے
وہ یہ کہتے ہیں ہر اک ظلم ترے حکم سے ہے
گر یہ سچ ہے تو ترے عدل سے انکار کروں؟
ان کی مانوں کہ تری ذات کا اقرار کروں؟
ندائے غیب
ہر اک اولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فرد عمل سنبھالے
اٹھے گا جب جمع سرفروشاں
پڑیں گے دار و رسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اٹھے گا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ہوگا
نظم
تین آوازیں
فیض احمد فیض