EN हिंदी
طفلاں کی تو کچھ تقصیر نہ تھی | شیح شیری
tiflan ki to kuchh taqsir na thi

نظم

طفلاں کی تو کچھ تقصیر نہ تھی

فہمیدہ ریاض

;

اے دوست پرانے پہچانے
ہم کتنی مدت بعد ملے

اور کتنی صدیوں بعد ملی
یہ ایک نگاہ مہر و سخا

جو اپنی سخا سے خود پر نم
بیٹھو تو ذرا

بتلاؤ تو کیا
یہ سچ ہے میرے تعاقب میں

پھرتا ہے ہجوم سنگ زناں؟
کیا نیل بہت ہیں چہرے پر؟

کیا کاسۂ سر ہے خون سے تر؟
پیوند قبا دشنام بہت

پیوست جگر الزام بہت
یہ نظر کرم کیوں ہے پر نم؟

جب نکلے کوئے ملامت میں
اک غوغا تو ہم نے بھی سنا

طفلاں کی تو کچھ تقصیر نہ تھی
ہم آپ ہی تھے یوں خود رفتہ

مدہوشی نے مہلت ہی نہ دی
ہم مڑ کے نظارہ کر لیتے

بچنے کی تو صورت خیر نہ تھی
درماں کا ہی چارہ کر لیتے

پل بھر بھی ہمارے کار جنوں
غفلت جو گوارہ کر لیتے