ایک مجوف عدسے سے
میں دنیا کو دیکھ رہا تھا
جنگل میداں ریت کے ٹیلے
ثقل زمیں سے اپنا رشتہ توڑ رہے تھے
دور کنارے دریا کے
ساتھ پرانا چھوڑ رہے تھے
بہتی ہواؤں کے دامن کو
گرتے پربت تھام رہے تھے
اور ان سب کے پیچھے
میری آنکھیں پھیل گئی تھیں
میری ناک بہت لمبی تھی
وہ بولی پہچانو
آہستہ سے پیچھے آ کر کس نے آنکھیں موندیں
عدسہ پھینک کے میں نے اس کے دست حنائی تھام لیے
اور اس کی آغوش میں چھپ کر
جانے کب تک رویا
نظم
طفل آرزو
مصحف اقبال توصیفی