EN हिंदी
تیشۂ کرب | شیح شیری
tesha-e-karb

نظم

تیشۂ کرب

ارشد معراج

;

تیشۂ کرب کندھوں پہ رکھے ہوئے
کوہ کن بے اماں پھر رہے ہیں یہاں

خواہشوں کے دیئے
سب دھواں ہو گئے

وہ جو ماضی کے چمکیلے اوراق تھے
ان پہ لکھے ہوئے گیت گم ہو گئے

خواب کی بستیوں میں کوئی سر پھرا
اپنی پلکوں سے تقدیر گڑھتا رہا

اور تاریکیاں منہ چھپائے ہوئے
حال رفتہ پہ آنسو بہاتی رہیں

پستیوں کے سفر سے پلٹتے ہوئے
دھول اڑاتے ہوئے رتھ پریشان ہیں

یوں بلندی سے خائف بھلا کیوں ہوئے
یہ مسافر سبھی

آکسیجن سے دم ان کا گھٹتا ہے کیوں