رات پھر تیرے خیالوں نے جگایا مجھ کو
ٹمٹماتی ہوئی یادوں کا ذرا سا شعلہ
آج بھڑکا تو پھر اک شعلۂ جوالہ بنا
عقل نے تجھ کو بھلانے کے کیے لاکھ جتن
لے گئے مجھ کو کبھی مصر کے بازاروں میں
کبھی اٹلی کبھی اسپین کے گلزاروں میں
بلجیم کے، کبھی ہالینڈ کے مے خانوں میں
کبھی پیرس، کبھی لندن کے صنم خانوں میں
اور میں عقل کی باتوں میں کچھ ایسا آیا
میں یہ سمجھا کہ تجھے بھول چکا ہوں شاید
دل نے تو مجھ سے کئی بار کہا وہم ہے یہ
اس طرح تجھ کو بھلانا کوئی آسان نہیں
میں مگر وہم میں کچھ ایسا گرفتار رہا
میں یہ سمجھا کہ تجھے بھول چکا ہوں شاید
کل مگر پھر تری آواز نے تڑپا ہی دیا
عالم خواب سے گویا مجھے چونکا ہی دیا
اور پھر تیرا ہر اک نقش مرے سامنے تھا
تری زلفیں، تری زلفوں کی گھٹاؤں کا سماں
تری چتون، تری چتون وہی باطن کا سراغ
ترے عارض وہی خوش رنگ مہکتے ہوئے پھول
تری آنکھیں وہ شرابوں کے چھلکتے ہوئے جام
ترے لب جیسے سجائے ہوئے دو برگ گلاب
تری ہر بات کا انداز تری چال کا حسن
ترے آنے کا نظارا ترے جانے کا سماں
ترا ہر نقش تو کیا تو ہی مرے سامنے تھی
دل نے جو بات کئی بار کہی تھی مجھ سے
شب کے انوار میں بھی دن کے اندھیروں میں بھی
مرے احساس میں اب گونج رہی تھی پیہم
اس طرح تجھ کو بھلانا کوئی آسان نہیں
دل حقیقت ہے کوئی خواب پریشاں تو نہیں
یاد مانند خرد مصلحت اندیش نہیں
ڈوبتی یہ نہیں ہالینڈ کے مے خانوں میں
گم نہیں ہوتی یہ پیرس کے صنم خانوں میں
یہ بھٹکتی نہیں اسپین کے گلزاروں میں
بھولتی راہ نہیں مصر کے بازاروں میں
یاد مانند خرد مصلحت اندیش نہیں
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
یاد کا آج بھی انداز وہی ہے کہ جو تھا
آج بھی اس کا ہے آہنگ وہی رنگ وہی
بھیس ہے اس کا وہی طور وہی ڈھنگ وہی
پھر اسی یاد نے کل رات جگایا مجھ کو
اور پھر تیرا ہر اک نقش مرے سامنے تھا
نظم
تیری یاد
جگن ناتھ آزادؔ