EN हिंदी
تیری آواز | شیح شیری
teri aawaz

نظم

تیری آواز

راشد انور راشد

;

راہ میں چلتے ہوئے بھیڑ سے اکتائے ہوئے
تیری آواز سنی میں نے کئی سال کے بعد

سوچ کر ذہن پریشان رہا دیر تلک
شہر کے شور خرافات کے ہنگاموں میں

تیری آواز جو آئی تو کہاں سے آئی
پھر کسی وہم کے نرغے میں تو میں آ نہ گیا

تیری آواز کا سرگم کہیں دھوکا تو نہیں
دیر تک ذہن سوالات میں الجھا ہی رہا

کوئی امید نہ جس بات کی تھی کیسے ہوئی
کیسے پتھرائی ہوئی آنکھ میں آنسو آئے

کیسے پھر بھولا ہوا قصہ تجھے یاد آیا
راہ میں چلتے ہوئے بھیڑ سے اکتائے ہوئے

تیری آواز سنی میں نے کئی سال کے بعد
تیری آواز کا دھوکا ہے اگر وہم مرا

مجھ کو رہنا ہے اسی وہم کی سرشاری میں
تیری آواز کے دھوکے سے یہ محسوس ہوا

کوئی خواہش ہو تمنا ہو بہکتی ہے ضرور
اب بھی سینے میں کوئی چیز دھڑکتی ہے ضرور