دیوار پہ رینگتا ہوا کیڑا
نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے
وہ دیوار کے آخری سرے تک پہنچ سکا
یا بیچ میں ہی گر گیا
دیوار ہی تو اس کے وجود کا سہارا ہے
وہ بس رینگنے کی آزادی چاہتا ہے
اگر وہ دیوار کے آخری سرے تک پہنچ گیا
تو اسے زندہ رہنے کا سکھ ملے گا
مگر اس کا زندہ رہنا خطرہ ہے
کہ اس رینگتے ہوئے کیڑے کے مردہ وجود پہ
بڑے بڑے ایوان کھڑے ہیں
جس میں بسنے والوں نے
کیڑے کو دیوار سے گرایا
اور اب وہ اس کے سوگ میں
صدائے احتجاج بلند کریں گے
نظم
تضاد
انجلا ہمیش