EN हिंदी
تضاد | شیح شیری
tazad

نظم

تضاد

آفتاب شمسی

;

زمین گھومتی ہے روز اپنے محور پر
فلک کھڑا ہے اسی طرح سر اٹھائے ہوئے

دنوں کے پیچھے لگی ہیں اسی طرح راتیں
سفر ہے جاری اسی طرح اب بھی لمحوں کا

ہوا کے دوش پہ خوشبو کے قافلے اب بھی
رتیں بدلنے کا پیغام لے کے آتے ہیں

ہمارے بیچ مگر فاصلے جو قائم ہیں
کسی طرح نہیں کم ہوتے بڑھتے جاتے ہیں!