باتوں کا مرتبان اچانک چھوٹ گیا ہے ہاتھوں سے
باتوں کے نازک جسم اب لفظوں کی کرچوں سے
زخمی ہے اور لہولہان بے بس سے ہیں
خیال اور معنی بھی اچھل کر دور پڑے ہیں کونے میں
روتے سے بلکھتے سے
سارے احساس پڑے ہے فرش پے مر کر
بھار پونچھ کر سمیٹ لوں پھر بھی چکھتے تو نہ مٹیں گے
نظم
طویل خامشی
ورشا گورچھیہ