ان کے لہجے میں وہ کچھ لوچ وہ جھنکار وہ رس
ایک بے قصد ترنم کے سوا کچھ بھی نہ تھا
کانپتے ہونٹوں میں الجھے ہوئے مبہم فقرے
وہ بھی انداز تکلم کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سیکڑوں ٹیسیں نظر آتی تھیں جس میں مجھ کو
وہ بھی اک سادہ تبسم کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سرد و تابندہ سی پیشانی وہ مچلے ہوئے اشک
دن میں نور مہ و انجم کے سوا کچھ بھی نہ تھا
تند آہوں کے دبانے میں وہ سینے کا ابھار
ایک یوں ہی سے تلاطم کے سوا کچھ بھی نہ تھا
میں نے جو دیکھا تھا، جو سوچا تھا، جو سمجھا تھا
ہائے جذبیؔ وہ توہم کے سوا کچھ بھی نہ تھا
نظم
توہم
معین احسن جذبی