برسوں بیٹھ کے سوچیں پھر بھی
ہاتھ کے آگے پڑا نوالہ
آپ حلق کے پار نہ جائے
یہ ادنیٰ ناخن تک شاید بڑھتے بڑھتے
جال بچھائیں
گیان نگر بے حد دل کش ہے
لیکن اس کے رستے میں جو خار پڑے ہیں
کون ہٹائے
صدیوں کی سوچوں کا مرقع
ٹوٹے ہوئے اس بت کو دیکھو
ہرے بھرے خود رو سبزے نے گھیر رکھا ہے
فرق کشادہ سے چڑیوں کی یاد دہانی
چاہ ذقن پہ کائی جمی ہے
ہو سکتا ہے شاید اس کو گیان ملا ہو
ہو سکتا ہے
نظم
توازن
ابرارالحسن