روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم
گراں ہے دل پہ غم روزگار کا موسم
ہے آزمائش حسن نگار کا موسم
خوشا نظارۂ رخسار یار کی ساعت
خوشا قرار دل بے قرار کا موسم
حدیث بادہ و ساقی نہیں تو کس مصرف
خرام ابر سر کوہسار کا موسم
نصیب صحبت یاراں نہیں تو کیا کیجے
یہ رقص سایہ سرو و چنار کا موسم
یہ دل کے داغ تو دکھتے تھے یوں بھی پر کم کم
کچھ اب کے اور ہے ہجران یار کا موسم
یہی جنوں کا یہی طوق و دار کا موسم
یہی ہے جبر یہی اختیار کا موسم
قفس ہے بس میں تمہارے تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم
صبا کی مست خرامی تہ کمند نہیں
اسیر دام نہیں ہے بہار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم
نظم
طوق و دار کا موسم
فیض احمد فیض