اف وہ راوی کا کنارہ وہ گھٹا چھائی ہوئی
شام کے دامن میں سبزے پر بہار آئی ہوئی
وہ شفق کے بادلوں میں نیلگوں سرخی کا رنگ
اور راوی کی طلائی نقرئی لہروں میں جنگ
شہ درے میں آم کے پیڑوں پہ کوئل کی پکار
ڈالیوں پر سبز پتوں سرخ پھولوں کا نکھار
وہ گلابی عکس میں ڈوبی ہوئی چشم حباب
اور نشے میں مست وہ سرمست موجوں کے رباب
وہ ہوا کے سرد جھونکے شوخیاں کرتے ہوئے
بن پیئے با مست کر دینے کا دم بھرتے ہوئے
دور سے ظالم پپیہے کی صدا آتی ہوئی
پے بہ پے کم بخت پی پی کہہ کر اکساتی ہوئی
اور وہ میں ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر بیٹھا ہوا
دونوں ہاتھوں سے کلیجہ تھام کر بیٹھا ہوا
شیخ صاحب! سچ تو یہ ہے ان دنوں پیتا تھا میں
ان دنوں پیتا تھا یعنی جن دنوں جیتا تھا میں
اب وہ عالم ہی کہاں ہے مے پئے مدت ہوئی
اب میں توبہ کیا کروں توبہ کئے مدت ہوئی
نظم
توبہ نامہ
حفیظ جالندھری